Home / مضامین / فضیلتِ علم ضرورت و اہمیت

فضیلتِ علم ضرورت و اہمیت

فضیلتِ علم ضرورت و اہمیت

علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بُروں کو اچھا، دشمن کو دوست، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔

 

علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید دین اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی۔ تعلیم و تربیت، درس و تدریس تو گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے۔ کلام پاک کے تقریبا اٹھتّر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے رحمت للعالمین ﷺ کے قلبِ مبارک پر نازل فرمایا، وہ اِقراء ہے یعنی پڑھ۔

 

رب کائنات کا ارشاد ہے: (مفہوم) ’’ پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم قلم کے ذریعے سکھلایا آدمی کو، جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘

گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس بات کی طرف سرکار دوعالم ﷺ کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی، وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم و تربیت کے زیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔ حضورﷺ کے اعلان نبوت کے وقت جزیرۂ عرب کی کیا حالت تھی؟

قتل و غارت، چوری، ڈکیتی، قتل اولاد، زنا، بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو۔ اﷲ کے رسولﷺ نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے فرمائی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یک سر بدل گئی اور وہ تہذیبی اقدار سے آشنا ہوکر تعلیم و تعلم سے جُڑگئے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہے: (اے نبیﷺ) ’’ کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘

ﷲ تبارک و تعالی فرماتا ہے: ’’ کہہ دیجیے، کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔ ‘

قرآن حکیم میں اس طرح کی بہت آیات ہیں، جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ترغیب دی گئی ہے۔

تعلیم کی موجودہ ابتر حالات کا ذمہ دار صرف کسی ایک طبقہ کو نہیں قرار دیا جاسکتا، بلکہ امت کا اجتماعی وانفرادی طور پر ہر طبقہ اس کا ذمہ دار ہے

حصول علم کا شوق _ ایک زندہ مثال

علم ایک عظیم دولت ہے۔ علم انسان کو اندھیرے سے اُجالے میں لاتا ہے۔ علم کے حصول میں کچھ لوگوں نے بڑے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ زمانہ طالب علمی سے لوگوں میں ہر دل عزیز تھے اور ہر کوئی ان کو محبت اور شفقت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ انہوں نے چالیس سال کی عمر میں لکھنا پڑھنا شروع کیا۔ پھر تعلیم حاصل کرنے کا حق ادا کردیا. اُن کی حکمت و دانش کی کتابیں آج دُنیا بھر کے ممالک کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر اخلاص وللہیت، مسلسل محنت، بلند ہمتی، ادب واحترام کی پیکر بن کر نظر آتی ہے.

حصول علم کا مقصد

حصول علم کے بعد انسانی قلب میں نمایاں تبدیلی آتی ہے ۔ مادیت پر انحصار کرنے کے بجائے انسانیت کے بارے میں سوچنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے ۔ علم انسان میں حفظ خودی کی خوبیاں پیدا کر تا ہے۔ علم انسان کو توحید، عشق خداوندی، بلند ہمتی، سخت کوشی، پاک دامنی، فقر، روا داری، اعتدال، کمزوروں کی مدد ، ظالموں کے خلا ف جنگ اور درویشی قناعت جیسی صفات سے آراستہ کرکے ایک مثالی انسان بناتاہے ۔ انسانی معاشرہ خوشگوار بنتا ہے اور یوں علم کا ایک واضح مقصد ہمارے سامنے آتا ہے ، یہیں اس بات کا بھی علم ہوجاتا ہے کہ آخر اللہ تعالی نے کیوں حصول علم پر اتنا زیادہ زور دیا ہے؟ ، کیوں ہرمذہب میں علم کے حصول کی اہمیت بتائی گئی ہے؟ اور کیوں علم کی فضیلت عظمت بیان کی گئی ہے؟ ۔ کیوں علم انسانی تعظیم کا سبب قرار دیا گیا ہے ؟۔

خلاصہ کلام یہ کہ تعلیم کا مقصد انسانی بگاڑ کی اصلاح کیلئے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا بھی کہ وہ خود کو مفید بنا کر صالح و معتدل معاشرے کووجود میں لانے میں مددگار بنے ۔ ظلم کے خلاف بر سرپیکار رہے ۔ انسانوں کو غلامی کی زنجیر سے آزادی دلائے ۔ ان سب کے ساتھ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے خالق کو جانے ، اپنی تخلیق کے مقصد کوسمجھے اس میں یہ شعور پیدا ہوسکے اور وہ خودی کی تقویت اور استحکام جیسی صفات سے آراستہ ہوجائے

 

اللہ رب العزت کی بارگاہِ مآب میں دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں علم کے نور سے مزین و آراستہ فرمائے. آمین

کنیز حسین مالکی

Check Also

زندگی کی آخری گھڑی میں صبر

حضرتِ مالك بن دینار رضی اللہ عنہ کو مرضِ وفات میں اس بات کی خواہش …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے