Home / مضامین / بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں
Betiyan ma ka aks hoti hain y warda
Betiyan ma ka aks hoti hain

بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں


ہماری اور تمام مومنین کی ماں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا

جن کا لقب طاہرہ ہے
آپ بچپن سے ہی نہایت پاکباز اور نیک سیرت خاتون تھیں
آپ نے عورتوں میں سب سے پہلے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق فرمائ ،، سرکار کی پہلی زوجہ ہونے کا شرف ملا اور 24 سال تک تادم وصال رفاقت رسول ﷺ میں گزارا ، نزول وحی کے بعد نو برس زندہ رہیں اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مسائل کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق ادا کر دیا
کسی طعن و تشنیع کی پرواہ کئے بغیر تبلیغ اسلام میں پیارے آقا کا ساتھ دیتی رہیں
اپنا تمام مال و زر اسلام کی اشاعت ، یتیموں بیواؤں کی خبر گیری، اور حاجت مندوں کی دستگیری میں وقف کر دیا
ہمہ وقت حضور کے ہر رنج و غم میں غم گساری اور مدد کے لئے جان و مال سے تیار رہتی تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا
جب میں کفار سے کوئی ایسی بات سنتا جو مجھ پر ناگوار ہوتی تو میں خدیجہ سے کہتا وہ اس طرح سے میری ڈھارس بندھاتیں کہ مجھ کو تسکین ہو جاتی اور کوئی رنج ایسا نہ تھا جو آسان اور ہلکا نہ ہو جاتا
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جہاں حضور کے لیے ایک جانثار غمگسار بیوی تھی وہیں اولاد کی پرورش بھی نہایت حسن و خوبی سے کرتی تھیں ۔ ساتھ ہی ساتھ امور خانہ داری کو بھی نہایت سلیقے سے نباہتی تھیں ۔
یعنی ایک جانثار، وفادار، خدمت گار، با وفا با حیا بیوی تھیں تو نیک سیرت، حسن اخلاق کی مالک اعلیٰ تربیت دینے والی ماں بھی تھیں.. امور خانہ داری میں ماہر، ہر کام کو دلجمعی سے کرتیں، عبادت و ریاضت، تقویٰ اور طہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھیں ۔
ان کی جانثاری اور فدایانہ جذبے کے سبب حضور ﷺ نے ان کی حیات میں دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ حضور ﷺ نے ان کے حق میں "کانَت اُمُّ الْعَيالْ وَ رَبته البيت” فرمایا۔
وہ میری اولادوں کی ماں اور گھر کی ذمے دار تھیں ،
حضور ﷺ ہمیشہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی تعریف کیا کرتے تھے،
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ حضور ﷺ نے فرمایا : چار عورتیں دنیا کی تمام عورتوں سے افضل ہیں:.
"مریم بنت عمران”
"آسیہ زوجہ فرعون”
"خدیجہ بنت خویلد”
"فاطمہ بنت محمدﷺ”
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل تشریف لائے درآنحالیکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں حضرت جبریل نے کہا کہ اللہ تعالی حضرت خدیجہ پر سلام بھیجتا ہے سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خدیجہ سے فرمایا. اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا :
اِنَّ اللہ ھُوالَّسلامُ وَعَلَی جِبریلَ السَّلامُ وَ عَلیکَ یا رَسول اللہ السَّلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ترجمہ   بیشک سلام اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جبریل پر سلامتی ہو اور آپ پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکات ہوں
(اس حدیث پاک کو امام نسائ نے السنن الکبریٰ میں روایت کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے)

حضرت خدیجہ کی ذہنی فراست تھی کہ انہوں نے جواب میں والسلام نہیں کہا
بلکہ "ان للہ ھوالسلام” کہا کیونکہ "السلام” اللہ کا صفاتی نام بھی ہے اسی طرح آپ نے حضرت جبرئیل اور رسول کریمﷺ پر بھی سلام بھیجا اور یہ مثال قائم کی کہ سلام بھیجنے والے اور سلام پہنچانے والے دونوں کے لیے سلامتی کی دعا مانگنی چاہیے ۔

دیکھیں کیسے کیسے اوصاف حمیدہ ہماری ماں حضرت خدیجہ کے ہیں۔ علم و بصیرت ہو کہ تقویٰ اور صبر ہو نیک بیوی کی خصوصیات ہوں یا بہترین ماں کے اوصاف، بچوں کی اعلی تربیت کا معاملہ ہو یا امور خانہ داری ہر ایک خصلت بہت اعلی اور بہترین تھی۔
نہ غموں سے گھبرانا نہ اپنوں کے طعن و تشنیع سے پریشان ہونا ، بلکہ نہایت صبر و استقلال سے حق زوجیت نبھانا رنج و غم میں شوہر کی غم گسار رہنا، یہ سب خصلتیں ہماری ماں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی ہیں۔
انہی اوصاف حمیدہ کے سبب اللہ کے رسول ہمہ وقت ان کی تعریفیں فرماتے رہتے تھے جب بھی گھر میں داخل ہوتے کچھ دیر تک ان کی تعریف کرتے رہتے۔
اور ان کی یہ شان کہ اللہ رب العزت ان کو سلام بھیجتا ہے۔
میری عزیز بہنو ! بڑوں کو میں نے بار بار یہ کہتے سنا ہیکہ "بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں” لیکن آج جب اپنے معاشرے پر اپنے اردگرد نظر ڈالتی ہوں ہم میں سے کسی میں ہماری ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اوصاف نظر نہیں آتے نہ وہ تقویٰ نہ صبر نہ چھوٹوں پر شفقت نہ بڑوں کا احترام نہ ہی حق اور سچ کا ساتھ دینا ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ محض بیوی ہونے کی وجہ سے نہیں نبھایا بلکہ ان کے صداقت پر یقین کامل تھا اور سچائی اور حق کا ساتھ نبھایا۔ امیر باپ کی بیٹی اور بہت دولت و ثروت کی مالکہ ہونے کے باوجود نہ کوئی فخر نہ غرور بلکہ سارے کا سارا مال اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی کی خاطر راہ حق میں قربان کر دیا
پیاری بہنو ! مقام غور ہیکہ ایک بیٹی ہونے کے ناطے ہم میں ہماری ماں حضرت خدیجہ کا کون سا وصف ہے ہم کس کردار کو نبھا رہے ہیں ہمارے اطوار کیا ہیں
کیا ہمارے دامن میں صداقت کے گہر ہیں
کیا ہم چھوٹوں پر شفقت بڑوں کا ادب کرتے ہیں
کیا ہم بیوی کی صورت میں حق زوجیت خلوص اور دیانت سے ادا کر رہے ہیں
کیا ہم دنیاوی طمع سے دور غریبوں حاجتمندوں کے درد کو سمجھنے انکی ضروریات کو پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
ہم کیا کر رہے ہیں ہم ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے اگر چہ ہم مکمل عکس نہیں بن سکتے تو اس راہ پر چلنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے

وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ (سورہ بینه:۵)

ترجمہ  اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نرے اسی پر عقیدہ لاتے ایک طرف کے ہوکر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہ سیدھا دین ہے ۔

لہذا اللہ اور رسول ﷺ کہ رضا کی خاطر ہمیں کوشش تو کرنی ہوگی ہوگی کہ ہم بھی اپنے آپ کو ان اوصاف سے مزین کریں بڑوں کا احترام کریں وہ اپنے ہوں یا غیر میکے والے ہوں یا سسرالی رشتے دار ہر ایک کا خاطر خواہ ادب و احترام کریں۔ ضرورت مندوں کی مدد کریں بھلائی کرکے احسان نہ جتائیں اور سب سے اہم بات کہ اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں اسلامی طور طریقے اچھی طرح سمجھیں اس وقت جب کہ ہر طرف عریانیت کا بول بالا ہے فحاشی سر چڑھ کر بول رہی ہے چاروں طرف سے انگریزوں نے جال بچھائے ہیں بچوں کی فطرت میں ہی زہر گھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ زہر ہم خود اپنے بچوں کوپلا رہے ہیں۔
ہم خود اسلامی تعلیمات سے دور ہیں اوراسمارٹ ، اسٹینڈر ہونے کے نام پر بچوں کو بھی اسلام سے دور کرتے جارہے ہیں انگریزوں نےعریانیت کی ڈوز بنا کر ہمارے ہاتھ میں دے دی ہے اور ہم نئے دور کے جنون میں بغیر دیکھےکہ یہ زہر ہے اپنے بچوں کی رگوں میں انڈیل رہے ہیں
عزیز بہنو ! میں یہ بالکل نہیں کہہ رہی کہ تارک الدنیا بن جائیں.. لیکن اتنی عرض ضرور ہیکہ دنیاوی عز و جاہ کی خاطر اسلامی تعلیمات سے دور نہ ہوں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بھی خیال رکھیں اپنی ضروریات بھی پوری کریں اسلام یہ بالکل نہیں کہتا کہ آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر راہب یا راہبہ بن جائیں صرف تسبیح و مصلیٰ لیکر گوشہ نشین ہو جائیں اسلام میں رہبانیت نہیں ہے … لیکن یہ بھی نہیں ہیکہ دنیا کی چاہت میں دین بھول جائیں… دین و دنیا کو ساتھ لیکر چلیے اس بات کو یاد رکھیے کہ ہمارے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے
دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون

اور میں نے جِنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا کہ میری بندگی کریں۔
(سورہ الذٰرِیٰت : ٥٦)

آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو محض دنیاوی مشغولیت اور چاہت کیلئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ. (سورہ مومنون:۱۱۵)
تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے

پیاری بہنو ابھی وقت ہے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرما رہا ہے :

اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(سورہ توبہ:۱۱۲)

ترجمہ  توبہ والے، عبادت والے، سراہنے والے، روزے والے، رکوع والے ،سجدہ والے ،بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ میں رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو۔

اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا(۱۴۶)مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا(سورہ نساء ۱۴۶، ۱۴۷)

ترجمہ مگر وہ جنہوں نے توبہ کی اور سنورے اور اللہ کی رسی مضبوط تھامی اور اپنا دین خالص اللہ کے لیے کرلیا تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ مسلمانوں کو بڑا ثواب دے گا۔ اور اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم حق مانو اور ایمان لاؤ اور اللہ ہے صلہ دینے والا جاننے والا۔

آئیے پھر سچے دل سے توبہ کریں اور اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں بزرگوں کے اوصاف میں ڈھالنے اور……
ام المؤمنين یعنی ہماری ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں

اللہ تعالی اس پر فتن دور میں ہمیں اسلام مخالف تمام ذرائع سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں ہماری ماں حضرت خدیجہ کے سانچے میں ڈھلنے اور ان کے پاکیزہ اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اور ہماری نسلوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے
آمین ثم آمین

شمیمہ رضویہ امجدی وردہ فریدی

Check Also

زندگی کی آخری گھڑی میں صبر

حضرتِ مالك بن دینار رضی اللہ عنہ کو مرضِ وفات میں اس بات کی خواہش …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے