اگر کسی فقیر کے پاس ایک روٹی ہوتی ہے تو وہ آدھی روٹی خود کھاتا ہے اور آدھی کسی غریب کو دے دیتا ہے لیکن اگر بادشاہ کے پاس ایک ملک ہوتا ہے تو وہ ایک اور ملک چاہتا ہے۔
شیخ سعدی شیرازی
ہم سبھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک جیسی نعمت نہیں عطا فرمائی کسی کو کچھ دیا تو کسی کو نہیں اور وہ بھی اسکی حکمت ہے۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے پھر اسکی آزمائش کسی بھی طرح کی ہو سکتی ہے کبھی وہ مال و دولت دے کر آزماتا ہے کہ اسکو کس طرح استعمال کرتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا عیّاشیوں میں۔۔۔۔ اور خدا کا شکر ادا کرتا ہے یا پھر نا شکری میں لگا رہتا ہے۔
لیکن جو اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا پر راضی رہتے ہیں اگر چہ انہیں اللہ تعالیٰ تھوڑا ہی رزق دے۔ وہ اُس تھوڑے پر قناعت کرتے ہیں اور اپنے مالک حقیقی کا شکر کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایک روٹی بھی عطا کرے تو آدھی کھاتے ہیں اور آدھی کسی اور کو کھلا دیتے ہیں کل می فکر میں بچا کر نہیں رکھتے اور اللہ پر توکل کرتے ہیں کہ جیسے مجھے آج کھلایا ہے وہ کل بھی کھلائے گا۔
اور کچھ بندے ہوتے ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اُنہیں پوری سلطنت کا مالک بھی بنا دے تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ ایک اور سلطنت کے خواہش مند ہوتے اور اگر بعض اوقات اُنہیں ایک اور سلطنت بھی میل جائے پھر بھی شکر نہیں ادا کرتے اور اور کی طلب ہوتی ہے اور پھر جب بندہ. نعمتیں ملنے کے باوجود بھی اللہ کی نا شکری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی جانب سے تباہی میں ڈالتا ہے کہ وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔
یعنی فقر اور غربت سے انسان کے اندر صبر و شکر کی قوت بڑھتی ہے… وہیں مالداری طمع اور لالچ کو بڑھا دیتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جتنا بھی بھی دے ہمیں اسمیں شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔
جو بھی رزق عطا فرمائے آس پر قناعت اور صبر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
امیری اور مالداری عطا کرے تو اسکی راہ میں خرچ کرنے اور پھر شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔
خدمت دین کا حریص بنائے دنیاوی خواہشات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے