حضرتِ مالك بن دینار رضی اللہ عنہ کو مرضِ وفات میں اس بات کی خواہش ہوئ کہ میں گرم روٹی کا ثرید بنا کر گھاؤں جس میں شہد اور دودھ شامل ہو، چنانچہ آپ کے حکم سے خادم یہ تمام چیزیں لیکر حاضر ہوا- آپ کچھ دیر اُن چیزوں کو دیکھتے رہے، پھر بولے اے نفس! تو نے تیس سال متواتر صبر کیا ہے، اب زندگی کی آخری گھڑی میں کیا صبر نہیں کر سکتا؟ یہ کہا اور پیالہ چھوڑ دیا اور اسی طرح صبر کرتے ہوئے واصلِ بحق ہو گئے- حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں یعنی انبیاء، اولیاء، صدیقین، عاشقین اور زاہدین کے حالات ایسے ہی تھے-
حضرتِ سلیمان علیہ السلام کا قول ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس پر قابو پایا وہ اس شخص سے زیادہ طاقتور ہے جو تنِ تنہا ایک شہر کو فتح کر لیتا ہے-
حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں اپنے نفس کے ساتھ بکریوں کے ریوڑ پر ایسے جوان کی طرح ہوں جو ایک طرف اُنہیں اکٹھا کرتا ہے تو دوسری طرف پھیل جاتی ہیں-!
جو شخص اپنے نفس کو فنا کر دیتا ہے اسے رحمت کے کفن میں لپیٹ کر کرامت کی زمین میں دفن کیا جاتا ہے اور جو شخص اپنے ضمیر (قلب) کو ختم کر دیتا ہے اسے لعنت کے کفن میں لپیٹ کر عذاب کی زمین میں دفن کیا جاتا ہے-!
بقیہ اگلی پوسٹ میں
مکاشفتہ القلوب اردو
تالیف: حجتہ الاسلام حضرت امام غـزالی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ
ترجمہ: حضرت علامہ تقدس علی خاں بریلوی مدظلہ العالی