سوال : اگر کوئی کہے کہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنے وِصال کے وقت یہ فرمانا: ’’اللھُمَّ اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی‘‘ (اےاللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے ) یہ بھی تو موت کی تمنا ہی ہے
،اسی طرح اَمیرُالْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن خطاب اوراَمیرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدُناعلیُّ الْمُرْتَضٰیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہما نے موت کی تمنا فرمائی( تو اس میں کیاحکمت تھی ) حالانکہ حدیث پاک میں موت کی تمنا سے منع فرمایاگیا ہے ؟
جواب : ان احادیث مبارکہ میں کوئی تَعَارُض(ٹکراؤ) نہیں ہے کیونکہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ فرمانا:’’اللھُمَّ اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی‘‘ موت کی تمنا نہیں کیونکہ وہ ملائکہ جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رب سے ملاقات کی خوشخبری دے رہے تھے آپ نے انہیں دیکھ کر جان لیا تھا کہ اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال ہونے والا ہے اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ سَیِّدَتُنا فاطمۃ الزہرارَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ’’تمہارے والد کو آج کے بعد کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔ ‘‘
اُمُّ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا
کسی نبی کی روح اس وقت تک قَبْض نہیں کی جاتی جب تک کہ اسے اِختیار نہ دیا جائے ،پھر جب میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا (اللھُمَّ اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی) تو میں سمجھ گئی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وِصال ہونے والا ہے اور حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دنیا میں رہنا اختیار نہیں فرمایا اور آخرت کی زندگی کو پسند فرمایا اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی ۔
اسی طرح حضرتِ سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب یہ خوف لاحق ہوا کہ بڑھاپے اورجسمانی کمزوری کی وجہ سے شاید رعایا سے متعلق احکام خداوندی صحیح طور سے بجا نہ لاسکیں یا کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو دنیا یا آخرت میں باعث ملامت ہو تو انہوں نے دعا کی کہ اے میرےاللہ عَزَّوَجَلَّ ! اس سے پہلے کہ میں عاجز ہو جاؤں یا مجھ پر ملامت کی جائے تو میری روح قبض فرما۔
اسی طر ح جب اَمیرُالْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدُنامولائے کائنات ،علیُّ الْمُرْتَضٰی شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَریْم. کو رعایا سے اُکتاہٹ یا رعایا کی ان سے اُکتاہٹ اور اس کے نتیجے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی یا دور نہ ہونے والے باہمی اختلا ف کا خوف ہوا تو انہوں نے موت کی تمنا کی ۔
یعنی جب کسی دینی نقصان کا صحیح اندیشہ ہو تو موت کی تمنا کرنا درست ہے ۔
(شرح بخا ری لابن بطال،کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت،۹/۳۸۹)