مسند امام احمد بن حنبل اور طبقات ابن سعد میں حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے منقول ہے کے سیدہ کے مرض الموت میں تیمارداری کی غرض سے ان کے یہاں تھی ایک روزہ جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے سیدہ نے مجھے بلایا اور غسل کے لئے پانی تیار کرنے کا حکم دیا۔میں نے فورا ًتعمیل کی آپ نے غسل فرمایا کہ میں نے اس سے بہتر انداز میں کسی کو غسل کرتے نہیں دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنا لباس جو کہ موٹے کپڑے کا تھا طلب فرمایا پہنا، پھر فرمایا کہ میرا بستر گھر کے وسط میں بچھا دو پس وہ اس پر پہلو کے بل قبلہ رو لیٹ گئیں اور رخسار تلے اپنا ہاتھ رکھ لیا اور کہنے لگیں کہ اب میرا وقت وصال ہے۔ میں نے غسل کر لیا ہے لہذا کوئی مجھے غسل نہ دے۔ پھر آپ وصال فرما گئیں جب سیدنا علی تشریف لائے تو میں نے انہیں بتایا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم انہیں کوئی غسل نہیں دے گا۔ چنانچہ سیدہ کو اسی غسل کے ساتھ دفنا دیا گیا!!
ایک مرسل روایت جسے محمد بن عقیل نے روایت کیا ہے آیا ہے کہ بوقت وفات حضرت سیدہ فاطمہ نے حضرتِ علی سے غسل کے لیے پانی مانگا اور غسل کر کے پاکیزگی حاصل کی پھر اپنے کفن کے کپڑے جو موٹے اور کھردرے تھے۔ منگوائے پھر پہنے اور خوشبوں لگائی اور فرمایا کہ مرنے کے بعد اُنہیں کوئی نہ کھولے پس اُنہیں اسی طرح لپیٹ کر دفن کردیا گیا۔ میں نے فرمایا کہ کیا کسی اور نے بھی ایسا کیا؟ فرمایا ہاں کثیر بن عباس نے بھی ایسا کیا تھا! اور اپنے کفن کے ارد گرد لکھا کہ کثیر بن عباس گواہی دیتا ہے کہ
"لا الہ الا اللہ”
القول المسدد فی ذب عن مسند احمد میں حافظ ابن حجر نے ابن جوزی کے اسے موضوع قرار دینے کے لئے درست نہیں فرمایا!!