سوال جب بیوی کا انتقال ہو جاۓ تو کیا شوہر اس کے لۓ غیر مرد ہو جاتا ہےاسکو قبر میں نہیں اتار سکتا ہے یا اسے کندھا نہیں دے سکتا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عورت کے انتقال کے بعداس کےشوہر کا عورت کے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانا منع ہے۔بقیہ اس کے چہرے کودیکھنا یا اس کے جنازہ کو کندھا دینا اور قبر میں اُتارنا یہ سب جائز ہے ، اس میں شریعت ِ مطہرہ کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: اگر عورت مر جائے تو شوہر اس کے جنازے کو ہاتھ لگائے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: ” جنازے کو محض اجنبی ہاتھ لگاتے، کندھوں پر اُٹھاتے، قبر تک لے جاتے ہیں، شوہر نے کیا قصور کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلوں میں محض غلط مشہور ہے۔ہاں شوہر کو اپنی زنِ مردہ کا بدن چھونا ، جائز نہیں، دیکھنے کی اجازت ہے۔کمانص علیہ فی التنویر والدر و غیرھما ۔اجنبی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔محارم کو پیٹ، پیٹھ اور ناف سے زانوتک کے سوا چھونے کی بھی اجازت ہے۔“
اسی سے متصل ایک اور سوال ہوا : زوجہ کا جنازہ شوہر کو چھونا کیسا ہے؟ چھونا چاہئے یا نہیں؟ شوہر کا اپنی زوجہ کا منہ قبر میں رکھنے کے بعددیکھنا کیسا ہے ،چاہئے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں:” شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا ، جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔
زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔“
(فتاویٰ رضویہ جلد9،صفحہ138 )
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں: ”عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔“
(بہارِ شریعت ، جلد1،صفحہ 813)
واللہ اعلم بالصواب