سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلے ہذا میں کہ قبرستان کی صفائی مع ہرے بھرے درخت کے کٹوانے تک اور اس پر پھاوڑا کدال چلانے تک صحیح ہے یا نہیں،مدلل و مفصل جواب سے رہنمائ فرمائیں
الجواب بعون الملک الوھاب:
اگر قبرستان کی صفائی کی ضرورت ہو اور قبروں کی بے حرمتی کے بغیر اس کی صفائی ممکن ہو تو اس میں مضائقہ نہیں ،صفائی کی جاسکتی ہے ،اور ہری بھری گھاس یا درخت بھی کاٹے جاسکتے ہیں ؛البتہ بہتر ہے کہ ہری بھری گھاس یا درختوں کو نہ کاٹا جائے کہ ان کی تسبیح سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے(البتہ خشک کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے)،اسی طرح نئی قبروں کی رعایت کرتے ہوئے پھاوڑا یا کدال وغیرہ چلانے کی بھی گنجائش ہوگی۔
وإن نبتت الأشجار فیہا بعد اتخاذ الأرض مقبرة، فإن علم غارسہا کانت للغارس، وإن لم یعلم الغارس فالرأی فیہا للقاضی أن یبیع الأشجار، ویصرف ثمنہا إلی عمارة المقبرة فلہ ذلک، ویکون فی الحکم کأنہا وقف۔ (خانیة علی الہندیة ۳۱۱/۳)
ویکرہ أیضًا قطع النبات الرطب والحشیش من المقبرة دون الیابس۔ (شامی ۱۵۵/۳ط:)
وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجر من المقبرة؛ لأنہ ما دام رطبًا یسبِّح اللّٰہ تعالیٰ فیونس المیت وتنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمة، ولا بأس بقلع الیابس منہا أی الحشیش والشجر لزوال المقصود۔ (مراقی الفلاح / فصل فی زیارة القبور ۳۴۲)
واللہ اعلم بالصواب