یا نبی اگر مجھ کو اذن طیبہ مل جاتا
دیکھنے کو در تیرا دل یہ مستقل جاتا
ہے تڑپ مرے دل میں کس قدر مدینے کی
مجھ کو مصطفیٰ کا در چومنے کو مل جاتا
سبز، سبز گنبد گر خواب میں نظر آتا
باغِ دل مرا پل میں دیکھتے ہی کھل جاتا
اک نظر اگر کرتے مجھ پہ شاہِ طیبہ تو
جلد ہی مرے جانے کا ٹکٹ بھی مل جاتا
تربتِ شہِ بطحا دیکھتی جو آنکھوں سے
بے سکونی مٹ جاتی، اور سکون مل جاتا
جاؤں گی مدینے میں تو پہلے خوب روؤں گی
اشک پھر دعا کرتے اور لب یہ سِل جاتا
حاضری درِ اقدس کی نصیب ہو جاتی
آرزوئے زہرا کا کاش پھول کھل جاتا
فاطمہ زہرا نورانی