عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم لَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ لِضُرِّ أَصَابَہُ فَإنْ کَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْیَقُلْ اللہم أَحْیِنِیْ مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًالِیْ وَتَوَفَّنِیْ إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِیْ۔
(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، 4/13، حدیث:5671)
ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا
کسی تکلیف کے آنے پرتم میں سے کوئی شخص ہر گز موت کی تمنا نہ کرے اگر ضروری ہو تو یہ کلمات کہے
’’یااللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندہ رہنا بہتر ہے اور جب میرا مرنا بہتر ہو مجھے موت دے دے۔‘‘
تشریح : علامہ اَبُوزَکَرِیَّا یَحْیٰ بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی شرح مسلم میں فرماتے ہیں
اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ کسی مرض،فَقْر و فاقہ ،دشمن کے خوف یا اس جیسی دوسری دُنیوی مَشَقَّتوں کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ ہے۔
ہاں ! جب دینی نقصان یا کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہو تو اس صورت میں موت کی تمنا ممنوع نہیں اور ہمارے بہت سے اَسلاف رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلَام نے فتنے یا دینی نقصان کے خوف سے موت کی تمنا کی۔
اگر کسی کو ایسا خوف ہو تو وہ ارشاد ِ نبویﷺ کے مطابق یوں دعا کرے:
’’یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! جب تک میرے حق میں زندگی بہتر ہو مجھے زندہ رکھ اور جب میرا مرنا بہتر ہو تومجھے موت دیدے۔‘‘
اور افضل یہی ہے کہ وہ صبر کرے اور تقدیر پر راضی رہے ۔
(شرح مسلم للنووی،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ…الخ، باب کراہۃ تمنی الموت لضر نزل بہ،7/ 9، الجزء السابع عشر)