کون مہندی لگانے کا اصولی جواب یہ ہے کہ اس مہندی کو لگانے کےبعداگرجسم پر ایسی تہ جمتی ہو جس سے پانی جسم تک نہیں پہنچ سکتا ، جیسے ناخن پر نیل پالش کی تہ جمتی ہے تو ایسی مہندی لگاکر وضو اور غسل جائز نہیں، اور اگر کیمیکل کون مہندی لگانے سے جسم پر تہ نہیں جمتی، یا تہ جمتی ہے، لیکن وہ جسم تک پانی پہنچنے کو نہیں روکتی تو وضو اور غسل درست ہے.
کچھ خواتین نے اس قسم کی کیمیکل کون مہندی لگاکرتجربہ سے بتایا کہ اس کیمیکل کون مہندی کی تہ نہیں جمتی، یا ایسی تہ نہیں جمتی جو جلد تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہو، بلکہ کیمیکلز کی وجہ سے کھال ہی تہ و پپڑیوں کی شکل میں اترتی ہے، اگر یہی صورتحال ہے تو ایسی مہندی لگانا جائز ہے۔ اور اس کی پہچان کے دو طریقہ یہ ہیں:
1۔ کیمیکل کون مہندی جسم کے کسی بھی حصے پر لگائیں ، سوکھنےکےبعد اسے اتاردیں اور دیکھیں کہ جلد پر مہندی کےکلر سے پسینہ نکلتاہے یا نہیں؟ اگر پسینہ نکلتا ہے تو یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ اور ایسی کیمیکل کون مہندی کا استعمال جائز ہے.
2۔ کیمیکل کون مہندی کسی کاغذ پر لگائیں، سوکھنے کےبعد اسے اتاردیں، کاغذ پر جو کلر آیا ہے، اس پر پانی کےچند قطرے ڈال کردیکھیں کہ پانی کی تری کاغذ کی دوسری سمت میں آتی ہے یا نہیں ، اگرپانی جذب ہوکر دوسری سمت میں آجاتاہے یا اس کی تری آجاتی ہے تو معلوم ہوا کہ یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ اور ایسی کیمیکل کون مہندی کا استعمال جائز ہے.
الدر المختار (1/ 88)
وشرط لتصحيح الوضوء زوال ما يبعد إيصال المياه من أدران كشمع ورمص
الفتاوى الهندية (1/ 4)
في فتاوى ما وراء النهر إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز
غنية المستملي (ص:42)
إمرأة اغتسلت وقد كان الشان بقي في أظفارها عجين قد جف لم يجز غسلها وكذا الوضوء لا فرق بين المرأة والرجل لأن في العجين لزوجة وصلابة تمنع نفوذ الماء، وقال بعضهم يجوز الغسل لأنه لا يمنع ،والأول أظهر.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (1/ 62):
"و” الثالث "زوال ما يمنع وصول الماء إلى الجسد” لحرمة الحائل "كشمع وشحم” قيد به لأن بقاء دسومة الزيت ونحوه لا يمنع لعدم الحائل
واللہ اعلم بالصواب