سوال:.کیا فرماتے ہیں علمائے ذی وقار کہ کسی "عالم دین” سے کوئی لغزش ہو جائے تو اس کا بیان کرنا، یا لعنت بھیجنا عوام کے لیے کس حد تک درست ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب.. لعنت کسی عالم دین پر جائز نہیں.. البتہ جو گناہ یا غلطی سرزد ہوئی اس پر علماء کو لازم ہیکہ اس کی قباحت (برائ) بیان کریں (تاکہ جس سے یہ لغزش ہوئ باز آئے، توبہ کرے)
عوام کو اس سے احتراز (بچنا) لازم ہے، علماء کی تصحیح کے یہ اہل نہیں اور لعن، طعن کرنا جائز نہیں کیونکہ علماء کرام ہادی و رہنما ہیں لہذا احکام شرع میں عوام پر ان (علماء) کی اطاعت لازم ہے. اور ان کے قول و فعل ظاہراً احکام شرع کے خلاف ہوں تو احتراز کا حکم ہے مگر ان (علماء) پر زبان طعن دراز کرنے کی اجازت نہیں ۔
حدیث شریف میں ہے : "اتقو ازالة العالم و انتظروا فيئته”
عالم کی لغزش سے بچو اور اس کے رجوع کا انتظار کرو۔
(کنز العمال، کتاب العلم، حدیث:28678)
اس کے تحت علامہ عبد الرؤف مناوی فیض القدیر شرح جامع صغير میں فرماتے ہیں
ترجمہ.. عالم کی لغزش میں ان کی پیروی سے بچو لیکن اس کے باوجود اس کے ساتھ اچھا گمان کرو اور جہاں تک اس کے لیے گنجائش پاؤ اس کے لیے عذر جوئ کرو۔
واللہ تعالیٰ و رسولہ ﷺ اعلم بالصواب
(فتاویٰ تاج الشریعہ، ج :1 ، ص: 264)