۱: کس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے
تشریح: میدان محشر میں یہ کسی کے جلووں کی روشنی ہے نورانیت اور اجالا کیسا ہے کہ آنکھیں حیران ہو کر ہر طرف غور سے دیکھ رہی ہیں۔
۲: مانگ من مانتی منھ مانگی مرادیں لیگا
نہ یہاں نہ ہے نہ منگتا سے یہ کہنا کیا ہے
تشریح: اے سوالی! اس نور کی ٹھنڈک بتا رہی ہے کہ ہمارے آقا کی جلوہ گری ہو رہی ہے تو پھر تیاری کر لے اور منھ مانگی مراد کے لئے جھولی پھیلا دے کیونکہ ہمارے سرکار کی بارگاہ رسالت میں نہ (لا) تو ہے ہی نہیں اور نہ ہی وہ سوالی کو یہ فرماتے ہیں کی کیوں مانگ لیا
۳: ہم ہیں ان کے وہ ہیں تیرے تو ہوۓ ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تیری سمت اور وسیلہ کیا ہے
تشریح: ہم اپنے آقا کے پیارے ہیں اور ہمارے آقا اپنے رب کے پیارے ہیں اس طرح ہم اللہ کے پیارے ہوۓ کیونکہ دوست کا دوست بھی دوست ہی ہوتا ہے اے اللہ! اس سے بڑھ کر تو ہمارے پاس وسیلہ کوئی بھی نہیں ہے
۴: صدقہ پیارے کی حیا کا نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجاۓ کو لجانا کیا ہے
تشریح: اے مالک و مولی! اسی پیارے محبوب کا صدقہ اگر مجھے بغیر کسی حساب کے بخش دے تو تیرا کیا نقصان ہے؟ میری بات بن جائیگی۔ بھلا جو پہلے ہی سے شرمسار ہے اسکا حساب لیکر اس کو مزید شرمسار کرنا اس سے کیا حاصل ہوگا میں تو اقراری مجرم ہوں
اے رضا جان عنادل تیرے نغموں پہ نثار
بلبل باغ مدینہ تیرا کہنا کیا ہے
تشریح: اے( ثنا خوانے مصطفی گراۓ خیرالورہ پیارے) احمد رضا! تیرے کیا کہنے جس انداز سے تونے اپنے آقا کی تعریف میں نغمہ سرائ کی ہے باغ کی بلبلیں بھی تیری نعت گوئی پہ جھوم جھوم کر جانیں قربان کر رہی ہیں تو تو واقعی بلبل چمنستان مدینہ ہے اس میں شک نہیں کہ محبوب خدا کی مدح سرائ کے لئے انداز احمد رضا چاہۓ کیونکہ تیرا قلم کسی دینا دار کی تعریف میں حرکت نہیں کرتا آقا اگر کوئی اصرار بھی کرے تو بڑی بے نیازی سے لکھ دیتا ہے۔ میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ ناں نہیں ۔