حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس میں ایک مسلمان جو نماز کا پابند ہو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ عطاء فرمادیتا ہے ۔
(مسلم شریف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز کی فضیلت کے بارے میں فرمایا مجھے خیال ہوتا ہے کہ میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے پھر اس کے بعد اُن لوگوں کے گھروں کو آگ لگادو جو جمعہ چھوڑ کر بیٹھے ہیں۔ (نسائی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو آپ کی چشم مبارک سرخ ہوجاتی تھی اور آواز بلند ہوجاتی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپﷺ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں کہ صبح کو اس کا حملہ ہونے والا ہے، شام کو ہونے والا ہے۔ (مسلم شریف)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں اپنے اصحاب کو اسلام کے اصول و قواعد اور شرائع کی تعلیم دیتے تھے اور اگر امر و نہی کا معاملہ ہوتا تھا۔ امر و نہی فرماتے تھے۔ (زاد المعاد)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کی نماز بھی معتدل ہوتی تھی اور خطبہ بھی معتدل قرآن کی چند آیات تلاوت فرماتے، پھر لوگوں کو نصیحت فرماتے۔
(مسلم شریف)
خطبہ جمعہ کو بہت خاموشی اور سکون کے ساتھ سننے کا حکم ہے تاکہ پرسکون اور روحانی فضاء میں اس کا پورا فائدہ حاصل ہوسکے۔ اس لیے کہ یہ عبادت کا محل ہے نہ کہ خطابت کا۔خطبہ کے دوران گفتگو کو سختی سے منع کیا گیا یہاں تک کہ اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو بات چیت کرنے سے بھی روکنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس میں بھی اس کے سکون و وقار میں فرق آجائے گا جو خطبہ میں مطلوب ہے۔
حضرت امام غزالی رحمة اللہ علیہ اپنی معرکتہ الآراء کتاب احیاء العلوم میں لکھتے ہیں، (ترجمہ) مسلمانوں میں جب تک اصلی اسلام تھا تو جمعہ کے دن فجر کے بعد راستے اور شہروں کی گلیاں لوگوں سے بھری ہوئی نظر آتی تھی۔ کیونکہ سب لوگ بہت سویرے جامع مسجد میں جاتے تھے۔ بہت اژدہام ہوتا تھا، جیسے عید کے دنوں میں ہوتا تھا، پھر یہ طریقہ جاتا رہا لوگوں نے کہا کہ یہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں پیدا ہوئی۔ آگے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں شرم نہیں آتی۔ یہود اور نصاریٰ ہی کو دیکھ کر ان کو عبرت پکڑنی چاہیے کہ وہ لوگ اپنی عبادت کے دن یعنی یہود ہفتہ کو نصاریٰ اتوار کو اپنے عبادت خانوں میں کیسے شوق سے سویرے جاتے ہیں اورطالبان دنیا کتنے سویرے بازاروں میں خرید و فروخت کے لیے پہنچ جاتے ہیں پس طالبانِ دین کیوں پیش قدمی نہیں کرتے۔
اسلام نے ہفتہ میں ایک دن جمعہ کا ایسا مقرر کیا ہے جس میں تمام شہر کے محلوں اور آس پاس کے مسلمان آپس میں جمع ہوکر اس ساتویں دن کی عبادت ادا کریں۔ سال میں دو عیدوں میں اور سال میں ایک مرتبہ حج کے دن سب دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرنے میں جس قدر فوائد و برکات حاصل ہوتے ہیں وہ ظاہر ہے ان تمام اجتماعات کا فائدہ اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا ہے جس کی ان دنوں بہت کمی ہے۔ آج مسلمانوں کے اجتماعات کی صفیں درہم برہم ہیں ان کے دل ایک دوسرے سے رخ پھیرے ہوئے ہیں اور اُن کے سجدے بے ذوق و شوق بن کر رہ گئے ہیں اور ان میں روح اجتماعی اور قلب کی والہانہ کیفیت نہ رہی۔
حضرت عراک بن مالک رحمة اللہ علیہ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوتے تو مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوجاتے اور یہ فرماتے تھے: اللھم انی أجبت دعوتک و صلیت فریضتک، و انتشرت کما امر تنی، فارزقنی من فضلک و أنت خیر الرازقین۔
(تفسیر صابونی)
اے اللہ! بے شک میں نے تیری دعوت کو قبول کیا اور میں نے تیری فرض نماز پڑھی اور میں نکل گیا جیسا کہ تو نے مجھ کو حکم دیا پس تو مجھ کو اپنے فضل سے رزق عطاء فرما اور توہی بہترین رزق دینے والا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے یہود و نصاریٰ پر جو تم سے پہلے تھے جمعہ کے دن کی عظمت و فضیلت پوشیدہ رکھی اس لیے وہ بھٹک گئے۔ یہود کے لیے ہفتہ کا دن تھا اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا دن۔ پس وہ قیامت تک ہمارے پیچھے ہیں ہم اہل دنیا سے آخر پر آئے ہیں اور سب لوگوں سے پہلے ہمارا فیصلہ ہوگا۔ یعنی دربارِ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ وجہ اس بات کی یہ ہے کہ دنیا کی ابتداء اتوار سے شروع ہوئی اور اس کی تکمیل جمعہ کے دن بوقت عصر ہوئی۔ پس جمعہ کے دن میں جس کی پیدائش ہو وہ جامع فضائل والا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی فضیلت اس امر کے مقتضی ہے کہ اس کو دربارِ الٰہی میں باریابی سب سے پہلے ہو کیونکہ وہ تمام نیکیوں کا مجمع اور سب کا سردار ہے۔
(اسرار شریعت)
حضرت مظہر جانِ جاناں رحمة اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جو دعاء کی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ حضرت اگر وہ گھڑی ہم کو مل جائے تو کیا دعا کرنا چاہیے تو آپ نے فرمایا کہ نیک صحبت ملنے کی دعاء کرنی چاہیے۔
(مواعظ حسنہ)