امام نوی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں
حدیثوں میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ جن احادیث میں جھاڑ پھونک ترک کرنے کی تعریف ہے اس سے مراد وہ دم ہے جو کافروں کے کلام سے کیا جائے یا مجہول کلمات سے ہو یا غیر عربی ہو یا جن کا معنی کچھ نہ ہو یہ جھاڑ پھونک (گنڈے تعویذ) مذموم ہیں۔ کیونکہ کفر یا اس کے قریب یا مکروہ ہونے کا احتمال ہے۔ رہ گیا قرآنی آیتوں یا مشہور و معروف اذکار سے دم کرنا تو یہ منع نہیں بلکہ یہ تو سنّت ہے‘‘۔
امام نووی، متوفی 676ھ، شرح مسلم، 2: 227، باب الطب والمرض ولرقیٰ، طبع لاہور
علامہ ابن القیم کا قول ہے کہ: ’’جب یہ حقیقت ثابت ہے کہ بعض کلام کے خواص اور فائدے ہوتے ہیں، تو رب العالمین کے کلام کے بارے میں کیا خیال ہے، پھر فاتحہ کے بارے میں جس کی مثال نہ قرآن میں نہ باقی کتابوں میں کہ یہ مشتمل ہے قرآن کے تمام معانی پر۔‘‘
علامه ابن حجرعسقلانی، فتح الباری شرع صحيح بخاری، 10: 198، طبع دارالفکر س م خ
عربی میں تعویذ کو رُقْيَةُ کہا جاتا ہے، ابن اثیر الجوزی اس کا لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رُقْيَۃُ‘‘وہ دُعا جس سے مصیبت زدہ کو جھاڑا جائے۔ مثلاً بخار، بےہوشی وغیرہ اور آفات میں۔ بعض احادیث میں اس کا جواز اور بعض میں ممانعت آئی ہے۔ جواز کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
اسے جھاڑ پھونک کرو اس عورت کو نظربد لگ گئی ہے، مطلب یہ کہ اس کے کوئی جھاڑ پُھونک کرنیوالا تلاش کرو!‘
اور ممانعت کی ایک مثال یہ ہے نیک لوگ نہ جھاڑ پھونک کریں نہ داغیں۔‘
وہ جھاڑ پھونک مکروہ ہے جو جو عربی زبان میں نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے اس کی صفات اور کلام سے نہ ہو، اس کی نازل کردہ کتابوں میں نہ ہو اور عقیدہ یہ رکھا جائے کہ دم درود لازمی فائدہ دیگا اور اسی پر توکل کر لیا جائے۔ س م خ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی: (1) نظربد (2) بچھو وغیرہ کے کاٹے پر (3) پھوڑے پھنسی کیلیے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2196
امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو نظربد سے بچنے کیلیے جھاڑ پھونک کا حکم دیا کرتے تھے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5406, مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2195
امّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا۔ فرمایا: اِسْتَرْقُوْا لها فانّ بها النظرة
’ اسے جھاڑ پھونک کرو، اسے نظر لگ گئی ہے۔‘‘
خاری، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5407 ,مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2197
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
عمرو بن حزم کے خاندان والوں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک وظیفہ تھا، جس سے ہم بچھو کے کاٹے کو جھاڑتے تھے اور آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرما دیا ہے، ان لوگوں نے وہ ورد وظیفہ سرکار کے سامنے پیش کیا، فرمایا مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، تم میں جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے اسے ضرور نفع پہنچائے۔
(مسلم، الصحيح، 4: 1726، رقم: 2199
احمد بن حنبل، المسند، 3: 315، رقم: 14422)
سیدہ شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:
(اے شفاء!) تم اس (حفصہ) کو پھوڑے پھنسی کا دم کیوں نہیں سکھاتیں؟ جیسے تم نے اسے لکھنا سکھایا۔
أبوداؤد، المتوفی 275ه، السنن، 4: 11، رقم: 3887، دارالفکر
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ:
’ نظر بد سے بچنے کیلیے دم کیا جائے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5406 س م خ
حضرت جابر بن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عمرو بن حزم انصاری رضی اللہ عنہ آئے یہ صاحب سانپ کے ڈسے کو (جھاڑ) کرتے تھے-
’’عرض کی یا رَسُولَ اللہ! آپ نے دم جھاڑ سے منع فرما دیا جبکہ میں سانپ کے ڈسے کو دم کرتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ دم مجھے پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے پڑھ کر سنایا، فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں یہ تو اللہ کے وعدے ہیں۔ کہتے ہیں میرے انصاری ماموں آئے وہ بچھو کا دم کرتے تھے، عرض کی یا رسول اللہ! آپ نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں بچھو کاٹے کو دم کرتا ہوں۔ فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، پہنچائے‘’
حاکم، المستدرک، 4: 460، رقم: 8277
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی:
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بیمار ہیں؟ فرمایا ہاں‘‘
انہوں نے یہ دم پڑھا:
بِسْمِ اللہ اَرْقِيْکَ مِنْ کلّ شی يُؤْذِيْکَ مِنْ شرّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْعَيْنٍ حاسدٍ اللہ يَشْفِيْکَ بِسْم اللہ ِاَرْقِيْکَ.
’’اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر نفس یا نظر ِحاسد کے شر سے، اللہ آپ کو شفاء دے، اللہ کے نام سے آپ کو دم (جھاڑ) کرتا ہوں۔ ( مسلم، الصحيح، 4: 1718، رقم: 2186)
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور کو سخت بخار تھا، انہوں نے یہ دم پڑھا:
. بِسْمِ اللہ أرْقِيْکَ مِنْ کُلِّ شَیٍ يُؤْذِيْکَ من کُلِّ حَسَدٍ وَّ حَاسِدٍ وَ کُلِّ غَمٍّ وَ اِسْمُ اللہِ يَشْفِيْکَ.
’’میں اللہ کے نام سے آپ کو جھاڑتا ہوں، ہر ایسی چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر حسد اور حسد کرنے والے سے اور ہر غم سے اور اللہ کا نام آپ کو شفا دے۔
(حاکم، المستدرک، 4: 457، رقم: 8268)
فتویٰ عالمگیری میں ہے: ’قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید)ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے۔
الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة المشهور فتاویٰ عالمکیری، 5: 356، طبع کوئتهس م خ
امام ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
’مکرہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، ان گنڈے تعویذوں سے شفاء حاصل کرنے میں حرج نہیں جن میں قرآن یا اللہ کے نام لکھے ہوں۔ اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے۔ مگروہ گنڈہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں۔
ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6: 363، دار الفکر للطباعة و النشر. بيروت