روزے کی فرضیت ، اہمیت اور فضیلت: جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنیاد ہے ان میں سے پانچویں اور آخری چیز روزہ ہے۔ نماز اور زکوٰۃ کی طرح روزوں کی فضیلت و اہمیت بھی قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہے۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
(پ 2 ، البقرة: 183)
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ- فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ–
(پ 2، البقرة: 185)
ترجمہ کنزالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے۔
روزے کا معنیٰ ومفہوم: ’’صوم‘‘ کے لغوی معنیٰ ہیں باز رہنا ، رکے رہنا ،اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا
(پ 16، مریم:26)
ترجمہ کنزالایمان : میں نے آج رحمٰن کا روزہ مانا ہے)
‘‘ یعنی میں نے بات چیت سے باز رہنے کی نذر مانی ہے۔
(مراٰۃ المناجیح، 3/ 133 ،ملخصاً)
روزے کا شرعی معنیٰ: روزہ عرفِ شرع میں مسلمان کا بہ نیَّتِ عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے، پینے، جماع (ہم بستری) سے روکے رکھنا۔
(الفتاوی الھندیة، کتاب الصوم، الباب الاول، 1/ 194)
روزے کا مقصد، غرض : نفس کا زور توڑنا، دل میں صفائی پیدا کرنا، فقرا اور مساکین کی موافقت کرنا ،مساکین پر اپنے دل کو نرم بنانا۔
مرقات میں ہے کہ حضرت یوسف علیہِ السّلام قحط کے زمانے میں پیٹ بھر کھانا نہ کھاتے تھے تاکہ بھوکوں، فاقہ مستوں کا حق نہ بھول جائیں۔
(مراٰۃ المناجیح، 3/ 182 ملخصاً)
روزے کی فرضیت : لمعات، مرقات اور درمختار وغیرہ میں ہے کہ : 2′ ہجری میں تبدیلی قبلہ کے ایک مہینے بعد ہجرت سے اٹھارھویں مہینے 10, شعبان کو روزے فرض ہوئے۔
(مراٰۃ المناجیح، 3/ 182 ملخصاً)
نماز و زکوٰۃ کی طرح روزے کی فرضیت کا انکار کرنے والا بھی کافر ہے۔
(ماخوذ از منتخب حدیثیں، ص:66)
روزہ بہت عمدہ عبادت ہے، اس کی فضیلت میں بہت سی احادیث کریمہ مروی ہیں ۔
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(بخاری شریف ، کتاب الصوم 1/ 626، حدیث: 1899)
حضرت سیِّدُنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں ایک دروازے کا نام ریّان ہے، اس سے (جنت میں) وہی جائیں گے جو روزے رکھتے ہیں۔
(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابواب الجنة، 2/ 394، حدیث: 3257)
حضور نبی پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ سِپر (ڈھال) اور دوزخ سے حفاظت کا مضبوط قلعہ ہے۔
(مسند احمد، مسند ابی ھریرہ، 3/ 367، حدیث: 9236)
روزہ نہ رکھنے کی مذمت پر احادیث مبارکہ : حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے رَمضان کے ایک دن کا روزہ بغیر رُخصت و بغیر مرض اِفطار کیا (یعنی نہ رکھا) تو زمانے بھر کا روزہ بھی اُس کی قضا نہیں ہوسکتا اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے۔
(ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الافطار متعمدا، 2/ 175، حدیث: 723)
یعنی وہ فضیلت جو رمضان میں روزہ رکھنے کی تھی اب کسی طرح نہیں پاسکتا۔
(بہارِ شریعت، حصہ5، 1/ 985 ،ملخصاً)
حضرت سیِّدُنا جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ماہِ رَمضان کو پایا اور اس کے روزے نہ رکھے وہ شخص شقی (یعنی بد بخت) ہے، جس نے اپنے والدین یا (ان میں) کسی ایک کو پایا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا وہ بدبخت ہے اور جس کے پاس میرا ذِکر ہوا اور اُس نے مجھ پر دُرُود نہ پڑھا وہ بھی بدبخت ہے۔
(معجم اوسط، 3/ 62، حدیث: 3872)