Home / سوالات و جوابات / حضرت فاطمہ کا جہیز؟اسلام میں جہیز لینے کا حکم کیا ہے؟

حضرت فاطمہ کا جہیز؟اسلام میں جہیز لینے کا حکم کیا ہے؟

سوال کیا فرماتے ہیں  علماء کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ اسلام میں جہیز لینے کا حکم کیا ہے؟ بعض علماء کے وعظ ونصحیت میں کہتے ہوئیے سنا گیا ہے کہ جہیز لینا حرام ہے۔ کیا یہ حکم صحیح ہے؟ کس علت کی بناء پر جہیز کو حرام قرار دیا گیا ہے؟ اکثر ایسے بھی مقامات ہیں جہاں اگر لڑکے والے جہیز لینے سے انکار بھی کریں تو لڑکی والے زبردستی جہیز دینے کی بات کرتے ہیں۔ پھر اس صورت میں جہیز لینے کا کیا حکم ہوگا؟
کیا پیارے آقا ﷺ نے حضرت فاطمہ کو جہیز دیا تھا؟

الجواب بعون الملک الوھاب

نکاح انسانی فطرت  کے ایک ضروری تقاضے کو جائز طریقے  سے پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،  اور اگر اس جائز   طریقے پر رکاوٹیں عائد کی  جائیں  یا اس کو مشکل بنایا جائے تو  اس کا  لازمی نتیجہ بے راہ روی کی  صورت میں نمودار ہوتا ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اپنی فطری ضرورت پوری کرنے کے لیے  جائز راستے بند پائے گا تو اس کے دل میں ناجائز راستوں کی طلب پیدا ہوگی،  جو انجامِ  کار معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ بنے گی۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی ایسا شخص تمہارے پاس رشتے کا پیغام بھیجے جس کی دِین داری اور اَخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا نکاح کرادو، اگر ایسے نہیں کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ اور وسیع فساد ہوجائے گا‘‘۔ (رواہ الترمذی)

اسلام نے نکاح کو جتنا آسان  بنایا ہے موجودہ معاشرتی  ڈھانچے نے  اسے اتنا ہی مشکل  بنادیا ہے، نکاح کے بابرکت  بندھن پر  بے شمار  رسومات، تقریبات،  اور فضول اخرجات کے   ایسے  بوجھ لاد  دیے گئے ہیں کہ ایک غریب بلکہ متوسط آمدنی والے  شخص کے لیے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا  ہے اور اس میں اکثر اور بیش تر  ایسی رسومات  کا  ارتکاب کیا جاتا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،  بلکہ وہ    ہندوانہ  رسمیں ہیں،  اور غیر اقوام سے   مشابہت  کی ممانعت  بے شمار احادیث میں وارد ہوئی،  حدیثِ مبارک  میں ہے: ” سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو” ۔

"وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً» . رواهما البيهقي في شعب الإيمان”. (2/268 مشکاۃ، کتاب النکاح)

نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔

اور  ’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں،اگروالدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔

لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی  نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکرہ یا ترغیب ملتی ہے۔ جہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے سلسلہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادی فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا کو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں:  ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔

” عن علي، رضي الله عنه قال: «جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر»”. (سنن النسائي (6/ 135)

”اکثر اہلِ علم اس حدیث کا یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں اپنی صاحب زادی کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیزکے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج، بلکہ تصور بھی نہیں تھا۔ اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ سیدہ فاطمہ کے علاوہ دوسری صاحب زادیوں کے نکاح کے سلسلہ میں کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا۔ رہی بات حدیث کے لفظ ’’جهّز‘‘ کا مطلب، تو اس کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ کے لیے حضور ﷺنے ان چیزوں کاانتظام حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ان ہی کی طرف سے اور ان ہی کے پیسوں سے کیا تھا؛ کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھرمیں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہرحال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا‘‘۔

بہر صورت اگر اس کو جہیز بھی تسلیم کرلیں تو  بس وہ وہی بنیادی ضرورت کی چیزیں تھیں جو ان کے گھر میں موجود نہیں تھیں، جن کی ان کو ضرورت تھی، تو  آپ ﷺ نے اپنی بیٹی کو اس کا انتظام کرکے دے دیا۔ لہذا :

1  اگر والدین بغیر جبر و اکراہ کے اور بغیر نمود ونمائش کے اپنی حیثیت کے مطابق بطیبِ خاطر لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور لڑکی اس کی مالک ہوگی۔

2  اگر جہیز کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنے پر یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔ اور اگر ایسا جہیز بچی کے حوالہ کر بھی دیا گیا تو بچی ہی اس کی مالک ہوگی اور اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ جہیز کے سامان کو لڑکے والوں کے لیے استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا۔

3 لڑکے والوں کی طرف سے "جہیز”  دینے کادباؤ یا جہیز کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔

لڑکے والوں کا جہیز مانگنا حرام ہے۔ اگر لڑکی والے دیں تو اس میں حرج نہیں اور اس کی مالک لڑکی ہوگی، اس کا شوہر مالک نہ ہوگا۔ اور جو تحائف دولہا کو ملیں گے اس کے ہوجائیں گے۔ قال الإمام رحمه الله: شوہر کا جوڑا ادھر سے آتا ہے بعد قبضہ قطعاً مِلک شوہر ہو جاتا ہے کہ لوگ اُس تملیک ہی کا قصد کرتے ہیں وذلك واضح لاخفاء به. (فتاوی رضویہ، ٢٠٤/١٢) وقال: جہیز ہمارے بلاد کے عرف عام شائع سے خاص مِلک زوجہ ہوتا ہے جس میں شوہر کا کچھ حق نہیں، طلاق ہُوئی تو کُل لے گئی، اور مرگئی تو اسی کے ورثاء پر تقسیم ہوگا.

(فتاوی رضویہ، ٢٠٣/١٢)

والله تعالی اعلم

Check Also

Taharat e Sughra

طہارت صغریٰ

طہارت صغریٰ.. وضو کو کہتے ہیں وضو میں چار چیزیں فرض ہیں  مونھ دھونا . …

One comment

  1. تسلیمہ خاتون

    ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوب نہایت ہی اہم اور عمدہ بات پیش کی ہے آپ نے۔ جہیز آج کے معاشرے میں ایک تباہ کن اور غریب باپ کے سر کا بوجھ بن گیا ہے۔ پیارے آقا کا فرمان عالیشان سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو” ۔
    افسوس صد افسوس!!!!!!!!!!!
    آج نکاح اتنا ہی مشکل ہو گیا۔ اللہ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرماے۔آمین یا ربّ العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے