اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفاف رکھو کیونکہ جس طرح پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح سوچوں سے ایمان بنتا ہے۔۔
قول مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم
سوچ کو پانی کے قطروں سے زیادہ شفاف ہے یعنی جو بھی بات سوچو لوگوں کے بارے میں جو خیال کرو اچھا خیال کرو اپنے مسلمان کے بارے میں نیک خیال کرو
اور یہ بڑوں کا مشہور ہے کہ جیسی سوچ ہوگی ویسا ہی پھل ملے گا نیت اچھی رکھنی چاہیے سوچ اچھی رکھنی چاہئے کسی بھی کام کے بارے میں جیسے کے کہا جاتا ہے کہ اچھا اچھا سوچو تو اچھا ہوگا اسی طرح ہمارے سوچ کا اثر ہمارے جسم پہ ہمارے اخلاق پہ ہمارے کردار پر بھی ہوتا ہے جیسی ہماری سوچ ہوگی اسی طرح ہمارا اخلاق بھی نمایاں ہوگا ہمارے کردار سے ظاہر ہوگا تو اس لئے ہمیں اپنی سوچ اچھی رکھنی چاہئے۔
اپنے کام کے لئے اپنے اس پاس لوگوں کے لئے اپنے والدین کے لئے اپنے پڑوسیوں کے لئے اپنے تمام مسلمان بھائیوں بہنوں کے لئے سوچ اچھی رکھنی چاہئے
مثال کے طور پراگر کسی نے ہمیں ایسی چیز بیھجی جو کہ ہمیں نہیں پسند آئی تو بعض مرتبہ دل میں خیال آتا ہے کہ
یہی ملا تھا ان کو بھیجنے کے لیے یا انسان کچھ بھی برا خیال کرلیتا ہے ہمیں نیچا دکھانے کے لیےیہ بھیجا ہے تو اس طرح کی سوچ ہرگز نہیں آنے چاہیے بلکہ یہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ انہوں نے محبت سے ہمارے لیے بھیجا ہے یہ ان کی محبت کافی ہے اگرچہ ہمارے پسند کی چیز نہ ہو تو ہر ایک کے بارے میں ہمیں اچھا اخلاق رکھنا چاہیے ہماری اچھی سوچ رکھنی چاہیے ہمارے اخلاق سے ہی ہماری سوچ سے ہی ہماری فکر سے ہی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا السن اخلاقکم اپنے اخلاق کو نیک کیسے بنانا ہے اپنی سوچ سے یعنی ہمیں اچھی باتیں سوچنا ہے اچھے کام کرنے ہیں اور اپنی فطرت کو نیک بنانے کے لیے قیمتی کتب کا مطالعہ کرنا ہے درود شریف کا وردکرنا ہے اور اچھے لوگوں کی محفل میں رہنا ہے کیوں کہ دیکھوں انسان جس طرح سے جہاں رہتا ہے جس ماحول میں رہتا ہے اس ماحول میں ڈھل جاتا ہے پھر اس کی سوچ اور اس کی طرز زندگی بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے کہ یہ کہ ہمیں یہ تو ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ ہم کیسے لوگوں کو بیچ میں رہ رہے ہیں کیسے ماحول میں رہ رہے ہیں ہمیں اپنے ماحول کو بہتر بنانا ہوگا کیونکہ اس ماحول کا ہی اثر ہماری سوچ پر ہوگا
جیسے کہ کوئی ایک درخت ا گانا ہے اگر کسی کو تو آم کی بیج ڈال کر وہ سیب کے درخت کو نہیں اگا سکتا
اسی طرح خراب ماحول میں رہ کر فحش ماحول میں رہ کر کے اپنی سوچ کوئی اپنی سوچ کو اعلیٰ نہیں بنا سکتا کوئی اپنے اخلاق کو اعلیٰ نہیں بنا سکتا وہ جیسے ماحول میں رہے گا ویسے ہی اس کی سوچ اس کی فطرت بنے گی ہم اپنی فکر کو اپنی سوچ کو صاف و شفاف رکھنے کے لیے معاشرے کو بھی ویسا کرنا ہوگا ویسا ہی بہتر اور صاف لوگوں کے بیچ برتنا ہوگا
تاکہ ہم نیک لوگوں کا اثر قبول کرے ویسے ہمارے سوچ علمائے کرام کے بیچ بزرگوں کے بیچ اپنے گھر کے بڑوں بیچ کہ وہ اچھی نصیحتیں کریں اور وہ جو نصیحت کریں ہم اسے قبول کریں تو اس سے ہماری سوچ اچھی ہوگی کسی بزرگ کا قول ہے کہ میرے نامہ اعمال قیامت کے دن کلمہ لا الہ نکلے یا لعنت نکلے
میں پسند کرتا ہوں کہ میرے نامہ اعمال میں کلمہ لا الہ الا ہو اس کا مطلب یہ کہ ہم یہ سوچیں گے کہ ہمیں کیا ہونا چاہیے کیونکہ بہتر سوچنا ہے نا۔