عَنْ اَبِيْ رُقَيَّةَ تَمِيْمِ بْنِ اَوْسٍ الدَّارِيِّ رَضيَ اللهُ عَنْهُ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ.‘‘ قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: ’’لِلّٰهِ وَلِكِتَابِهٖ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِاَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَعَامَّتِهِمْ
(رَوَاہُ مُسْلِم)
ترجمہ: حضرت سیِّدُنا ابو رقیہ تمیم بن اوس داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’دین خیر خواہی ہے۔‘‘ ہم نے عرض کی، کس کے لئے؟ ارشاد فرمایا: ’’اللہ پاک کےلئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لئے۔‘‘
(مسلم، كتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحة، ص 51، حدیث:196)
شرح حدیث
مذکورہ حدیث پاک کی اہمیت: خیال رہے! حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اللہ پاک کی طرف سے عطا کئے گئے بے شمار معجزات میں ایک معجزہ ’’جوامع الکلم‘‘ کا بھی عطا ہوا کہ ’’مختصر جملہ میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔
(سیرت مصطفیٰ، ص:589)
مذکورہ حدیث پاک بھی ان احادیث میں شمار کی جاتی ہے جن کو ’’جوامع الکلم‘‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ احادیث جن کے الفاظ تو بہت کم ہوتے ہیں لیکن علم وحکمت کے کثیر موتی ان میں موجود ہوتے ہیں۔
چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ (حدیث پاک) بھی جامع کلمات میں سے ہے کہ ایک لفظ میں لاکھوں چیزیں شامل ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح، 6/ 557)
نصیحت کا معنیٰ ومفہوم
نصیحت بنا ہے "نصح” سے بمعنیٰ خالص ہونا، (اہل) عرب کہتے ہیں: ’’نَصَحْتُ الْعَسْلَ عَنِ الشَّمْعِ (یعنی) میں نے شہد کو موم سے خالص کرلیا۔‘‘ اصطلاح میں کسی کی خالص خیر خواہی کرنا جس میں بدخواہی کا شائبہ نہ ہو یا خلوصِ دل سے کسی کا بھلا چاہنا نصیحت ہے۔ حتّٰی کہ اعتقاد کو کفر سے خالص کرنا ، عبادات کو ریا سے پاک و صاف کرنا ، معاملات کو خرابیوں سے بچانا سب ہی نصیحت میں داخل ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح، 6/ 557)
نصیحت کی علامتیں
حضرت علامہ شاہ کرمانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’نصیحت کی تین علامات ہیں:
(1) مسلمانوں کے مَصائب پر دلی طور پر دکھی وغمزدہ ہو۔
(2). اُن کی خیر خواہی کی کوشش کرے اور
(3) بہتری کے کاموں کی طرف اُن کی رہنمائی کرے اگر چہ وہ اس کو ناپسند کریں اور اس سے ناواقِف ہوں۔
(دلیل الفالحین، باب فی النصیحة، 1/ 46)