سوال بیس رکعت تراویح کا ثبوت کہاں سے ثابت ہے؟مدلل و مفصل جواب حدیث کی رو سے بیان کریں!
الجواب بعون الملک الوھاب
صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی ، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلی دن لوگوں زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم باہر نہ نکلے ، جب صبح ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا، مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ثابت ہے، فرضیت کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمداً مداومت نہیں فرمائیں
عہدِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ”موطا امام مالک” میں ہے کہ عبد الرحمن بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بنٹے ہوئے ہیں، کچھ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو حضرت ابی بن کعب پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی حضرت ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔
موطا امام مالک میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تیئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔
موطأ مالك (2/ 158)
حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي تَقُومُونَ يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ۔
موطأ مالك (2/ 159)
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔
شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (4/ 1233)
‘ عن زيد بن ثابت: أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير فصلي فيها ليالي، حتى اجتمع عليه ناس. ثم فقدوا صوته ليلةً، وظنوا أنه قد نام، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم. فقال: ((مازال بكم الذي رأيت من صنيعكم،حتى خشيت أنيكتب عليكم، ولو كتب عليكم ما قمتم به، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة))۔ متفق عليه.
(نصب الراية (2/ 152)
عن عروة بن الزبير عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح، قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم، إلا أني خشيت أن تفرض عليكم، وذلك في رمضان، انتهى.
واللہ اعلم بالصواب