وَطن کی دو قسمیں ہیں۔
1..وطن اصلی
2..وطن اقامت.
وَطَنِ اصلی.. وہ جگہ جہاں وہ پیدا ہوا، اس کے ماں، باپ گھر کے لوگ رہتے ہیں، یا اس کا مکان، جائداد وغیرہ ہے .
اسی طرح اگر.. اس نے کسی اور شہر یا ملک میں (اپنی جائے پیدائش چھوڑ کر) مستقل رہائش اختیار کرلی،. پراپرٹی بنا لی، اور اس کے گھر والے وہاں ہیں، اور قانوناً وہاں رہ سکتا ہے تو وہ شہر اس کا وطن اصلی ہو جائے گا.. اب یہاں ایک دن کے لئے بھی آئے گا تو نماز مکمل پڑھنی ہوگی۔
نوٹ.. دوسری جگہ وطن اصلی بنا لینے سے پہلا ساقط نہیں ہوگا.. اگر اس کی جائیداد وہاں موجود ہو، یا اہل خانہ.. ماں باپ وہاں رہتے ہوں..ہاں اگر وہاں کچھ نہ ہو.. رہنے کا ارادہ بھی نہیں تو اب پہلا وطن، وطن اصلی نہیں رہیگا.
ایسا شہر کہ جس میں اس کی رہائش وغیرہ نہیں ہے مگر 15دن یا اس سے زیادہ رہنے کا ارادہ ہے تو اب یہاں مکمل نماز پڑھنی ہوگی اور یہ شہر اس کے لئے وطنِ اقامت ہے ۔
وَطن کی دوسری قسم، وَطَن اِقامت ہے یعنی وہ جگہ کہ مسافرنے پندَرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا وہاں ارادہ کیا ہو۔ وطن اقامت ہے.
وہاں پندرہ دن سے زیادہ کی کوئی قید نہیں.. چاہے سال، دس سال بھی رہے.. اسی اعتبار سے کوئی شخص کہیں نوکری کرتا ہے اور وہیں بیوی بچوں کے ساتھ بھی رہنے لگے.. مگر مستقل ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں.. کبھی نہ کبھی اپنے وطن لوٹنا ہے.. یا کہیں بھی الگ مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ ہے.
تو یہ وطن اقامت ہی ہے.
یہاں سے کسی دوسرے شہر یا ملک گئے اور واپس آکر اس شہر میں 15 دن رُکنے کی نیت نہیں تو چار رکعت فرض دو رکعت ہی پڑھے گا۔
اسی طرح وطنِ اقامت سے اپنے رہائشی شہر (وطنِ اصلی) میں گیا خواہ تھوڑی دیر کے لئے گیا اور پھر واپس وطنِ اقامت میں آیا تو اب اس شہر میں اگر 15 دن رُکنے کی نیت نہیں تو چار رکعت فرض دو رکت ہی پڑھے گا۔
جبکہ وطن اقامت سے وطن اصلی چاہے کچھ گھنٹوں کے لیے ہی جائے وہاں (وطن اصلی میں) قصر نہیں کرے گا.
شادی کے بعد عورت عام طور پر اپنے شوہر کے شہر میں رہتی ہے۔اگر یہی صورت ہے "یعنی عورت نے شوہر کے گھر مستقل رہائش اختیار کر لی” تو عورت کے ماں باپ کا شہر اب اس کا رہائشی شہر(وطنِ اصلی) نہ رہا۔ اب اگر اپنے ماں باپ کے شہرجائے گی اور 15 دن رُکنے کی نیت نہیں تو چار رکعتی فرض دو رکعت پڑھے گی۔
نوٹ.. جو بھی سفر کی صورت بتائ گئ ہیں.. مسافت کا خیال رکھتے ہوئے مسئلے پر عمل کریں.