عورتوں کے حقوق
بیوی کے حقوق
ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے، اُسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حق المرأة، 1 : 593، رقم : 1850
عورتوں کے متعلق خاص تلقین
سیدنا أبو هريرة رضي ﷲ عنه سے روایت ہے، رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم نے فرمایا :
’’إِنَّ الْمَرْأَةَ كَالضِّلَعِ، إِذَا ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا، وَإِنْ تَرَكْتَهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ.‘‘
"بلاشبہ عورت پسلی کی طرح ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو اس سے فائدہ اٹھاؤ گے جبکہ اس میں ٹیڑھا پن (موجود) ہو گا۔”
[ صحيح مسلم : ٣٦٥٠ ]تشریح: آپ ﷺ نے عورت کو پسلی کے ساتھ تشبیہ دے کر، انتہائی بلیغ اور مؤثر طریقہ سے یہ بات سمجھا دی ہے کہ جس طرح پسلی کو سیدھا کرنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح عورت کو بالکل سیدھا کردینا کہ اس کی کجی اور نقص مکمل طور پر دور ہوجائے ممکن نہیں ہے۔ ﷲ تعالی نے طبعی اور فطری طور پر اس کی سرشت میں کچھ درشتی اور بد اخلاقی رکھی ہے۔ اس کو گوارا کرنا چاہیے۔ اور اس کی کجی کو مکمل طور پر دور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ورنہ اسکا نتیجہ ناچاقی اور طلاق نکلے گا۔
[ تحفة المسلم شرح صحيح مسلم : ٥٢٧/٤ ]محمد بن واسع رحمه الله فرماتے ہیں : ”مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کے ساتھ ایسا رویہ رکھے جیسا کسی دیوانے کے گھر والے اس کے ساتھ رکھتے ہیں ؛ اس کی ہر تکلیف دہ اور ناپسندیدہ بات کو برداشت کرتے ہیں۔“
[ الامتاع والمؤانسة للتوحيدي : ٢٤٢ ]بہترین لوگ کون ہیں؟
سیدنا عبد الله بن عَمرو رضي الله تعالى عنهما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
« خيارُكم خيارُكم لنسائِهم ».
"تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں، جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہیں.”
(سنن ابن ماجه : ١٩٧٨، صحيح)
خاوند بیوی اور بچے مل کر معاشرے کی بنیادی اِکائی تشکیل دیتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے گھر کے ان افراد کو باہمی تعاون کی ضرورت دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ان کے تعلقات کی اصلاح معاشرے کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
خاوند اور بیوی کے باہمی تعلقات محبت، ہمدردی، ایثار اور اخلاص پر مبنی ہونے چاہییں۔ بیوی سے حسن سلوک کا فائدہ سب سے پہلے خود خاوند کو حاصل ہوتا ہے، اسی طرح خاوند سے محبت اور احترام کا رویہ سب سے پہلے خود عورت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
خاوند بیوی کے بہتر تعلقات کے نتیجے میں بچے بھی رحمت ثابت ہوتے ہیں لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات خوش گوار نہیں تو بچوں پر اس کا برا اثر ہوتا ہے اور وہ بری عادات سیکھ کر والدین کے لیے بھی مصیبت ہوتے ہیں اور معاشرے میں بھی فتنے فساد کا باعث بنتے ہیں۔
کسی غلط یا برے کام سے روکنے کے لیے مناسب حد تک سختی کرنا حسنِ سلوک کے منافی نہیں۔
(سنن ابن ماجه : ١٧٧/٣)
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور گناہوں سے محفوظ فرمائے
آمین یا رب العالمین