Home / متفرق پوسٹ / حُسنِ اخلاق قرآن و حدیث کی روشنی میں

حُسنِ اخلاق قرآن و حدیث کی روشنی میں

"اخلاق وہ چیز ہے جس کی قیمت نہیں دینی پڑتی ہے مگر اُس سے ہر انسان خریدا جا سکتا ہے”

       قولِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم

یعنی اخلاق کہیں خریدنے سے نہیں ملتا ،،اخلاق کا کوئی مول نہیں…. بلکہ اگر…کسی کا اخلاق اچھا، عمدہ ہو تو وہ لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے حسن خُلق کیوجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
اچھا اخلاق ہر انسان پسند کرتا ہے
اچھے اخلاق کے مالک، لوگوں کے محبوب ہوتے ہیں.. ہر ایک ان کو عزت و تکریم کی نظر سے دیکھتا ہے…. اعلیٰ اخلاق لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے۔

حُسنِ خلق کیا ہے؟
حضرت نواس بن سمعانؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ (مسلم)
یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘

اخلاق کے تعلق سے اللہ ربّ العزت اور اُس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی فرمان درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:-

     ارشادِ باری تعالیٰ

{خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} [الأعراف: 199]

ترجمہ:درگزر کی عادت اپناؤ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں کو منھ نہ لگاؤ۔

اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح عمل پیرا ہوتے تھے سبھی مومنین جانتے ہی ہیں تو خدائے تعالیٰ نے اپنے محبوب کے اخلاق کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:-
اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ (الفتح۔ ۲۹)
’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔‘‘

ایک آیتِ کریمہ یہ بھی ہے:-

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ’’اور بے شک تمہاری خُو بڑی شان کی ہے۔‘‘( القلم-۴)۔

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری

حیراں ہوں میرے شاہ، میں کیا کیا کہوںتجھے

لیکن رضاؔ نے ختم سخن اس پہ کر دیا

خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے

اور اب احادیثِ مبارکہ سے اخلاقِ حسنہ ملاحظہ فرمائیں:-

إنَّ الرجلَ لَيدرِكُ بحُسنِ خُلُقِه درجةَ القائمِ باللَّيلِ ، الظامئِ بالهواجِرِ .

والراوي : أبو أمامة الباهلي | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترغيب

یقیناً آدمی اپنے اچھے اخلاق کی بدولت عبادت گزار روزہ دار کا مقام حاصل کرتا ہے۔

اور ایک دوسری جگہ یہ حدیثِ کریمہ میں ہے اور یہ درس تصوّف بھی ہے

أَلا اَدُلٌُکُمْ عَلیٰ خَیْرِ اِخْلَاقِ اَه‍ْلِ الْدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔ اَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ، وَ تُعْطِعَ مَنْ حَرَمَكَ، وَ تَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَكَ

"کیا میں تمہیں دنیا و آخرت والوں کے سب سے اچھے کام نہ بتاؤں؟ جو تم سے تعلق ٹوڑے تم اسکو جوڈو ، جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کرو،جو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو”

Check Also

ہماری سوچ کیسی ہونی چاہیے؟

اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفاف رکھو کیونکہ جس طرح پانی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے