تقدیر کیا ہے؟: دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور بندے جو کچھ کرتے ہیں نیکی ،بَدی وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی کے مطابق ہوتا ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔(کتاب العقائد،ص24)
تقدیر کا ثبوت: تقدیرکا ثبوت قراٰن وحدیث میں موجود ہے جیساکہ اس آیتِ مبارکہ میں ہے: (اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(ترجمۂ کنزالایمان:بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی)۔(پ27،القمر:49)
تقدیر کے انکارکا حکم: تقدیر کا انکار کفرہے(منح الروض الازہر، ص69) حضوراکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنےتقدیرکاانکار کرنے والوں کواس”اُمّت کا مجوس“قرار دیاہے۔(ابو داؤد، ج 4،ص294،حدیث:4691)
قضا و تقدیر کی تین قسمیں ہیں۔
۱)قضائے مبرم حقیقی :یہ لوح محفوظ میں تحریر ہے اور علم الہٰی میں کسی شے پر معلق نہیں،اسکا بدلنا ناممکن ہے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے بھی اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرنے لگیں تو انہیں اس خیال سے واپس فرمادیا جاتا ہے ۔
۲۔قضائے معلق:اس کا صحف ملائکہ میں کسی شے پر معلق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے اس تک اکثر اولیاء اللہ کی رسائی ہوتی ہے ۔یہ تقدیر ان کی دعا سے یا اپنی دعا سے یا والدین کی خدمت اور بعض نیکیوں سے خیرو برکت کی طرف تبدیل ہوجاتی ہے اور اسی طرح گناہ و ظلم اور والدین کی نا فرمانی وغیرہ سے نقصان کی طرف تبدیل ہوجاتی ہے ۔
۳۔قضائے مبرم غیر حقیقی :ـیہ صحف ملائکہ کے اعتبار سے مبرم ہے مگر علم الہٰی میں معلق ہے اس تک خاص اکابر کی رسائی ہوتی ہے نبی کریم ﷺاور انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ بعض مقرب اولیاء کی توجہ سے اور پر خلوص دعاؤںسے بھی یہ تبدیل ہوجاتی ہے ۔سرکار غوث اعظم سید نا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں ۔حدیث پاک میں اسی کے بارے میں ارشاد ہوا ،بیشک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے ۔
مثال کے طور پر فرشتوں کے صحیفوں میں زید کی عمر 60برس تھی اس نے سرکشی و نافرمانی کی تو ۶۰ برس پہلے ہی اسکی موت کا حکم آگیا یا اس نے نیکیاںکی ہوئیں لیکن علم الہٰی اورلوح محفوظ میں وہی ۴۰ یا ۸۰ برس لکھی ہوئی تھی اور اسی کے مطابق ہوا۔
عقیدہ :قضا وقدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے اس لیے ان میں بحث اور زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت و گمراہی کا سبب ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں ہیں ۔بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر کی طرح بے اختیار و مجبور نہیں پیدا کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ اپنے بھلے برے اور نفع نقصان کو پہچان سکے اور اس کے لیے ہرقسم کے اسباب بھی بہیا کردیے ہیں جب بندہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے اسباب اختیار کرتاہے اسی بنا پر مؤ خذہ اور جزاو سزا ہے خلاصہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل محتار سمجھنا دونوں گمراہی ہیں ۔